0

اصحاب کہف کی کہانی

،،،،،،،،،،،،،، اصحاب کہف کون تھے ؟،،،،،،،،،،،،،
چند نوجوان تھے جو دین حق کی طرف مائل ہوئے اور ہدایت پر آ گئے۔ یہ متقی مومن اور ھدایت یافتہ نوجوانوں کی جماعت تھی، اپنے رب کی وحدانیت کو مانتے تھے، اس کی توحید کے قائل ہو گئے تھے اور روز بروز ایمان و ہدایت میں بڑھ رہے تھے۔ مذکور ہے کہ یہ لوگ مسیح عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے دین پر تھے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
یہ نوجوان ایک مرتبہ قوم کے ساتھ عید منانے گئے تھے۔ اس زمانے کے بادشاہ کا نام دقیانوس تھا، بڑا سخت اور سرکش شخص تھا، سب کو شرک کی تعلیم کرتا اور سب سے بت پرستی کراتا تھا۔
یہ نوجوان جو اپنے باپ دادوں کے ساتھ اس میلے میں گئے تھے، انہوں نے جب وہاں یہ تماشا دیکھا تو ان کے دل میں خیال آیا کہ بت پرستی محض لغو اور باطل چیز ہے، عبادتیں اور ذبیحے صرف اللہ کے نام پر ہونے چاہئیں جو آسمان و زمین کا خالق مالک ہے۔ پس یہ لوگ ایک ایک کر کے یہاں سے سرکنے لگے، ایک درخت تلے جا کر ان میں سے ایک صاحب بیٹھ گئے دوسرے بھی یہیں آ گئے اور بیٹھ گئے تیسرے بھی آئے چوتھے بھی آئے غرض ایک ایک کر کے سب یہیں جمع ہو گئے حالانکہ آپس میں انکا کوئی تعارف نہ تھا لیکن ایمان کی روشنی نے سب کو ملا دیا۔ حدیث میں ہے کہ روحیں بھی ایک جمع شدہ لشکر ہیں جو روز ازل میں تعارف والی ہیں وہ یہاں مل جل کر رہتی ہیں اور جو وہیں انجان رہیں ان کا یہاں بھی ان میں اختلاف رہتا ہے۔ [صحیح مسلم:2638] ‏‏‏‏
اب سب خاموش تھے ایک کو ایک سے ڈر تھا کہ اگر میں اپنے ما فی الضمیر کو بتا دوں گا تو یہ دشمن ہو جائیں گے، کسی کو دوسرے کی نسبت اطلاع نہ تھی کہ وہ بھی اس کی طرح قوم کی اس احمقانہ اور مشرکانہ رسم سے بیزار ہے۔ آخر ایک دانا اور جری نوجوان نے کہا کہ دوستو! کوئی نہ کوئی بات تو ضرور ہے کہ لوگوں کے اس عام شغل کو چھوڑ کر تم ان سے یکسو ہو کر یہاں آ بیٹھے ہو میرا تو جی چاہتا ہے کہ ہر شخص اس بات کو ظاہر کر دے جس کی وجہ سے اس نے قوم کو چھوڑا ہے۔ اس پر ایک نے کہا، بھائی بات یہ ہے کہ مجھے تو اپنی قوم کی یہ رسم ایک آنکھ نہیں بھاتی جب کہ آسمان و زمین کا اور ہمارا تمہارا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے تو پھر ہم اس کے سوا دوسرے کی عبادت کیوں کریں؟ یہ سن کر دوسرے نے کہا اللہ کی قسم یہی نفرت مجھے یہاں لائی ہے تیسرے نے بھی یہی کہا۔ جب ہر ایک نے یہی وجہ بیان کی تو سب کے دل میں محبت کی ایک لہر دوڑ گئی اور یہ سب روشن خیال موحد آپس میں سچے دوست اور ماں جائے بھائیوں سے بھی زیادہ ایک دوسرے کے خیرخواہ بن گئے۔ آپس میں اتحاد و اتفاق ہو گیا۔

اب انہوں نے ایک جگہ مقرر کر لی وہیں اللہ واحد کی عبادت کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ قوم کو بھی پتہ چل گیا وہ ان سب کو پکڑ کر اس ظالم مشرک بادشاہ کے پاس لے گئے اور شکایت پیش کی۔ بادشاہ نے ان سے پوچھا، انہوں نے نہایت دلیری سے اپنی توحید اور اپنا مسلک بیان کیا بلکہ بادشاہ اور اہل دربار اور کل دنیا کو اس کی دعوت دی، دل مضبوط کر لیا اور صاف کہہ دیا کہ ہمارا رب وہی ہے جو آسمان و زمین کا مالک و خالق ہے۔ ناممکن ہے کہ ہم اس کے سوا کسی اور کو معبود بنائیں، ہم سے یہ کبھی نہ ہو سکے گا کہ اس کے سوا کسی اور کو پکاریں۔ اس لیے کہ شرک نہایت باطل چیز ہے ہم اس کام کو کبھی اختیار نہیں کریں گے۔ یہ نہایت ہی بیجا بات اور لغو حرکت اور جھوٹی راہ ہے۔ یہ ہماری قوم مشرک ہے اللہ کے سوا دوسروں کی پکار اور ان کی عبادت میں مشغول ہے جس کی کوئی دلیل یہ پیش نہیں کر سکتے، پس یہ ظالم اور کاذب ہیں۔ کہتے ہیں کہ ان کی اس صاف گوئی اور حق گوئی سے بادشاہ بہت بگڑا انہیں دھمکایا ڈرایا اور حکم دیا کہ ان کے لباس اتار لو اور اگر یہ باز نہ آئیں گے تو میں انہیں سخت سزا دوں گا۔ اب ان لوگوں کے دل اور مضبوط ہو گئے لیکن یہ انہیں معلوم ہو گیا کہ یہاں رہ کر ہم دینداری پر قائم نہیں رہ سکتے، اس لیے انہوں نے قوم، وطن، دیس اور رشتے کنبے کو چھوڑنے کا ارادہ پختہ کر لیا ایک بلند پہاڑ کی غار میں چھپ گیئے یہ غار اردن میں ھے اس بستی کو رقیم کہتے ہیں

(یہی حکم بھی ہے کہ جب انسان دین کا خطرہ محسوس کرے اس وقت ہجرت کر جائے۔ حدیث میں ہے کہ انسان کا بہترین مال ممکن ہے کہ بکریاں ہوں جنہیں لے کر دامن کوہ میں اور مرغزاوں میں رہے سہے اور اپنے دین کے بچاؤ کی خاطر بھاگتا پھرے ) ۔ [صحیح بخاری:19] ‏‏‏‏

بادشاہ اور قوم نے ہر چندان کی تلاش کی لیکن کوئی پتہ نہ چلا، اللہ نے ان کے غار کو اندھیرے میں چھپا دیا۔ بالکل اسی طرح جسطرح حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ واقعہ پیش آیا۔ آپ اپنے رفیق خاص یار غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ غار ثور میں جا چھپے، مشرکین نے بہت دوڑ دھوپ کی مگر ناکام رھے اصحاب کہف بھی اللہ پر بھروسہ کرکے شہر سے نکل گئے یہ سوچتے ہوئے کہ اب اللہ پاک ہی ہمارے لیے کوئی فیصلہ کرے گا اور کوئی راستہ نکالے گا ، یہاں تک کہ وہ ایک پہاڑ کے غار میں جاکر چھپ گئے اور وہیں سوگئے یہاں تک کہ سوتے سوتے ان پر تین سو سال کا عرصہ گزرگیا ۔

اذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ فَقَالُوا رَبَّنَا آتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا ﴿١٠﴾ فَضَرَبْنَا عَلَىٰ آذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَدًا ﴿١١﴾

،،ان چند نوجوانوں نے جب غار میں پناه لی تو دعا کی کہ اے ہمارے پروردگار! ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما اور ہمارے کام میں ہمارے لئے راه یابی کو آسان کردے
پس ہم نے ان کے کانوں پر گنتی کے کئی سال تک اسی غار میں پردے ڈال دیئے”

دقیانوس نے جب ان لوگوں کو تلاش کروایا تو معلوم ہوا کہ یہ لوگ اسی غار میں موجود ہیں ۔ا سے بہت غصہ آیا اور حکم دیا کہ غار کو ایک مضبوط دیوار سے بند کردیاجائے تاکہ یہ لوگ اندر ہی مرجائیں ۔
بادشاہ نے جس شخص کے ذمہ یہ کام لگایا وہ بہت ہی نیک اور ایماندار تھا اس نے اصحاب کہف کے نام اور ان کی تعداد اور پورا واقعہ ایک تختی پر لکھواکر لوہے کے صندوق میں رکھ کر دیواروں کی بنیادوں میں رکھ دیا اور ایک تختی شاہی خزانے میں بھی رکھوادی ۔

ا س تین سو سال کے دوران دقیانوس بادشاہ مرگیا اور کئی بادشاہ اور حکومتیں آئیں اور چلی گئیں۔ یہاں تک کہ 300 عیسوی رومن ایمپائر نے بھی عیسائیت اختیار کرلی ۔

440 عیسوی میں بیدروس نامی عیسائی بادشاہ کی حکومت آئی جو ایک نیک دل اور انصاف پسند بادشاہ تھا اس نے 68 سال تک حکومت کی اس کے دور میں مذہبی فرقہ پسندی جب عروج پر پہنچ گئی اور لوگوں میں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے اور قیامت کا یقین ختم ہوتا جارہاتھا قوم کا یہ حال دیکھ کر بادشاہ بہت رنجیدہ ہوا اور اللہ سے دعا کی۔ اے اللہ کچھ ایسی نشانی ظاہر فرما کہ میری قوم کے لوگوں کا ایمان پھر سے تازہ ہوجائے انہیں قیامت ، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے اور ایک خدا کا یقین ہوجائے۔ا للہ تعالیٰ نے اس کی یہ دعا قبول فرمائی ۔

لہذا ایک روز ایک چرواہا اپنی بکریوں کو ٹھہرانے کے لیے اس غار کے پاس پہنچا یہ وہی غار تھا جس میں اصحاب کہف موجودتھے ۔اس چرواہے نے چند لوگوں کےساتھ مل کر اس دیوار کو گرا دیا ۔ دیوار کے گرتے ہی لوگوں پر ایسی ہیبت وخوف طاری ہوا کہ سب گھبرا کر وہاں سے بھاگ گئے ،یوں اللہ تعالیٰ کے حکم سے اصحاب کہف اپنی نیند سے بیدار ہوئے اورا یک دوسرے سے سلام کلام کرنے لگے اور اپنےا یک ساتھی جس کانام یملیخا تھا اسے بازار سے کھانا لانے بھیجا ۔ جب یملیخا بازار پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ شہر میں ہر طرف اسلام کا چرچا ہے یہاں تک کہ لوگ اعلانیہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کلمہ پڑھ رہے ہیں اور ان کی تعلیمات پر عمل بھی کررہے ہیں ۔

اس کشمکش میں یملیخا نے کھانے کے عوض اپنے زمانے کے سکے دکاندار کودیے ۔ دکاندار نے جب یہ سکے دیکھے تو شک ہوا کہ شاید اس شخص کو پرانا خزانہ مل گیاہے لہذا
اس نے یملیخا کو سپاہیوں کے سپرد کردیا۔ سپاہیوں نے یملیخا سے پوچھا: بتاؤ یہ خزانہ کہاں سے آیا ۔ یملیخا نے کہا ہمارے پاس کوئی خزانہ نہیں یہ ہمارا ہی پیسہ ہے ۔ سپاہیوں نے کہا ہم کیسے مان لیں کیونکہ یہ سکے تین سو سال پرانے ہیں یملیخا نے کہا پہلے مجھے بتاؤ کہ دقیانوس بادشاہ کا کیا حال ہے ؟ سپاہیوں نے جواب دیا : آج اس نام کا کوئی بادشاہ نہیں ہے مگر سینکڑوں سال پہلے اس نام کا ایک بے ایمان بادشاہ گزرا ہے وہ بت پرست تھا ۔ یہ سن کر یملیخا حیران پریشان ہوئے اور بتایا کہ ہم کل تو اس کے شہرسے اپنا ایمان ارجان بچاکر بھاگے تھے اور میں اور میرے ساتھی قریب کے ایک غار میں چھپ گئے تھے جبکہ میرے باقی ساتھی اب بھی غار میں موجود ہیں ۔ تم میرے ساتھ چل کر خود ہی دیکھ لو۔
جب سپاہی اور بہت سے لوگ اس غار کے پاس پہنچے تو اصحاب کہف یملیخا کے انتظار میں تھے۔ جب غار پر بہت سے آدمی پہنچے اور شوروغل سنائی دینے لگا تو اصحاب کہف سمجھے کہ دقیانوس کی فوج ہمارا تعاقب کرکے غار تک آپہنچی ھے لہذا وہ اللہ کے ذکر اور حمد وثناء میں مشغول ہوگئے ،سپاہیوں نے غار پر پہنچ کر تانبے کا وہ صندوق بر آمد کرلیا اور اس کے اندر سے تختی کو نکال کر پڑھا تو وہاں اصحاب کہف کے نام اور یہ لکھا تھاکہ
،، یہ مومنوں کی جماعت ہے جو اپنے دین کی حفاظت کے لیے دقیانوس بادشاہ کے خوف سے اس غار میں پناہ گزیں ہوئی ہے ۔دقیانوس نے اس غار کے منہ کو بند کروادیا ہے ،،
سپاہی یہ دیکھ کر حیران وپریشان رہ گئے جب کچھ سمجھ نہ آیا تو اپنے بادشاہ بیدروس کو اطلاع دی
بادشاہ نے یہ خبر سنی توفوراً اپنے امراء اور علماء کے ہمراہ پہنچ گئا اصحاب کہف نے غار سے نکل کرتمام واقعہ بادشاہ سے بیان کیا۔ بیدروس نے سجدہ ریز ہوکر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اے اللہ میری دعا قبول ہوئی اور آپ نے ایسی نشانی ظاہر فرمائی کہ انسان موت کے بعد زندہ ہونے کا یقین ضرور کرے گا۔اس کے بعد اصحاب کہف نے بادشاہ کو دعا دی اور سلام کرنے کے بعد دوبارہ اسی غار میں واپس چلے گئے اور سوگئے اسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے انہیں موت دے دی ۔ بادشاہ نےا سی غار میں ان کی قبریں بنوائی اور سالانہ ایک دن مقرر کردیا جب لوگ اصحاب کہف کی قبروں کی زیارت کے لیے آیاکرتے تھے ۔

أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا ( سورۃ الکہف آیت 9 )

کیا تو اپنے خیال میں غار اور کتبے والوں کو ہماری نشانیوں میں سے کوئی بہت عجیب نشانی سمجھ رہا ہے؟
نوٹ
اصحاب کہف کا یہ واقعہ تفسیر ابن کثیر تفھیم القرآن اور گوگل سے ترتیب دیا ھے اس میں کمی کوتاہی میری طرف سے ھے لکھنے کا مقصد صرف یہی ھے جو لوگ اللہ کو اپنا رب ،معبود ، خالق، مالک ، رازق ،مشکل کشا ,پروردگار ،حی وقیوم سمجھتے ہیں اللہ اپنے پیارے بندوں کی کس طرح حفاظت کرتا ھے
دعاؤں کا طالب
حافظ محمد حسین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں