سیدابوالااعلی مودودی گزشتہ صدی کے رجل عظیم ہیں وہ مفسر قرآن اور مفکراسلام ہیں انہوں نے اپنی زندگی اسلام کی اشاعت کےلئے صرف کردی جس زمانے میں آپ نے قلم اٹھایا یہ وہ زمانہ تھا جب پورے عالم میں اسلام پہ پےدرپے حملے ھورھے تھے ھندوستان میں اسلام کو خون خوار مذھب کے طور پہ پیش کیاجارھاتھا مغرب میں اسلام کا سیاسی نظام معاشی نظام معاشرتی نظام اور نظام عدل کوناقص قرار دیاجارہا تھا لینن ،کارل مارکس، ماؤزے تنگ کے نظریات کی دھوم تھی طاقت ور عالمی میڈیا ان سکالرز کے نظریات کی پرچار کر رھا تھا فرانس جرمنی میں سیکولر نظام کی دھوم تھی اور روس میں کیمونزم اپنے عروج پہ تھا عالمی طاقتیں ملکر اسلام اور اس کے نام لیواؤں کو بدنام کرنے کےلئے پوری شدت سے کام کررھی تھیں اسی زمانے میں سیدابوالااعلی مودودی نے مسلمانوں کی فکری زبوں حالی دیکھ کر قلم اٹھایا وہ خود لکھتے ہیں کہ میں مسلمانوں ایک بڑے جلسے میں شریک تھا اس جلسے میں بڑے بڑے علمائے کرام موجود تھے جہاد کے عنوان سے تقریریں ھوئیں علمائے نے اظہار کیا کہ جہاد کی فضیلت عظمت پہ کاش کہ کوئی مجاھد ھندوؤں کےپروپیگنڈہ کا مدلل جواب لکھے اسی جلسہ میں میں نے عہد کیا کہ میں اسلام کے دفاع کےلئے کام کروں گا سب سے پہلے انہوں 23 سال کی عمر میں ،،الجہاد فی الاسلام ،، لکھی اور اسلام کو ایک امن پسند مذھب ثابت کیا آج تک اس کتاب کا کوئی رد نہیں لکھ سکا اور یہ کتاب دنیائے اسلام میں جہاد کے عنوان پہ مکمل انسائیکلوپیڈیا ھے
سیکولر اور کیمونزم کے نظریات کو علم اور تحقیق کی بنیاد پہ رد کیا ،،تنقیحات ،، اور تفھیمات لکھ کر اس نظام کے بخے ادھیڑ ڈالےاور امت کی راہنمائی کی سیکولر لابی نے آج تک آپ کے نظریات کو دلیل سے رد نہیں کر سکی
کم پڑھے لکھے مسلمانوں کو اسلام کا بنیادی پیغام سمجھانے کےلئے خطبات اور دینیات لکھی جو دنیا کی سو زبانوں میں تراجم ھوکر لاکھوں کی تعداد میں کتب شائع ھوئیں ہیں اور امت مستفیض ھورھی ھے
پڑھے لکھے لوگوں کےلئے قرآن پاک کی آسان تفسیر لکھی اس پہ آپ نے اپنی زندگی کے32 سال صرف کیئے عربی فارسی کی درجنوں تفاسیر کا بہترین خلاصہ تفھیم القرآن کی شکل میں امت کے سپرد کیا جس سے آج عام مسلمان کے علاؤہ کالجوں یونیورسٹیوں کے طلبہ مستفیض بھی ھورھے ہیں
ھندوستان میں منکرین حدیث کا فتنہ پروان چڑھا تو آپ نے ،، سنت کی آئینی حیثیت ،، لکھ کر منکرین حدیث کے لئے سب دروازے بند کر دیئے جہاں سے وہ نقب لگاتے شکوک وشبہات پیدا کرتے اس کتاب کو عرب دنیا میں بھی بے حد پذیرائی ملی آج تک منکرین حدیث تلملا رھے ہیں اس کتاب کا کوئی رد نہیں لکھ سکے
عام مسلمانوں کی راہنمائی کےلئے ھزاروں سوالات کے جوابات تحریر کیئے جنہیں ،،رسائل ومسائل،، کی شکل میں آج بھی ایک علمی ذخیرہ موجود ھے جس کا اردو میں کوئی نعم البدل نہیں دین سیکھنے والے ھزاروں طالب علم مستفیض ھورھے ہیں
دین ،الہ ، رب، عبادت، کا قرآنی تصور پیش کرنے کےلئے قرآن کی ،،چار بنیادی اصطلاحیں،، لکھیں اور مسلمانوں کےلئے بہترین راہنما کتاب تصنیف فرمائی
مغربی معاشرے کی بے ہودہ اور بے پردہ طریقہ کار پہ ،،پردہ ،، کتاب لکھ کراس تہذیب پہ کاری ضرب لگائی
مزرا قادیانی کے جھوٹ کا پردہ چاک کیا ،، مسلہ قادیانیت،، لکھ کر ھمیشہ کےلئے نبوت کے جھوٹے دعوے داروں کادروازہ بند کیا اس کتاب پہ آپکو سزائے موت سنائی گئی بعد میں سعودی عرب کی مداخلت پہ یہ سزاختم ھوئی
سیدابوالااعلی مودودی کی علمی خدمات پہ زمانہ معترف ھے عرب عجم آپکو اپنا استاد مانتے ہیں اسلامی تحریکیں آپ کے نظریات سے راہنمائی لیتی ہیں آپکی کتب کو آب حیات سمجھتی ہیں آپکی دینی اسلامی جدوجہد سے لاکھوں لوگ مسلمان ھوئے ہیں آپ اسلام کو بحثیت نظام زندگی نافذ کرنے کےلئے ایک تحریک کی بنیاد رکھی جس کی شاخیں پوری دنیا میں موجود ہیں اور آپ کے دیئے گیئے اسلامی نظریئے کی اشاعت میں مگن ہیں
جس بندے نے دنیا بھر کے سکالرز سے ٹکر لی ھے انکے نظریات کو باطل ثابت کیا ھے اسلام کو بحثیت نظام زندگی کے طور پہ پیش کیا ھے ھزاروں سوالوں کے جوابات دیکر اپنا بیانیہ منوایا ھے تو اس کے مخالفین کا پیدا ھونا بھی کوئی معیوب نہیں بات نہیں اور نہ ھی گھبرانے کی ضرورت ھے
آپ کے مخالفین تین قسم کے ہیں
1 سیکولر اور کیمونسٹ طبقہ جس کا بیانیہ ،،میراجسم میری مرضی،، ھے بری طرح فلاپ ھوا ھے یہ سید مودودی کو اسلام کا اصل نمائندہ سمجھتا ھے اور اپنا مخالف سمجھتا ھے سید مودودی نے انکے نظریات کا قلعہ قمع کرکے انہیں ھمیشہ کےلئے دفن کردیا ھے پاکستان میں انکی کوئی گنجائش نہیں رھی ڈکٹیٹر کے روپ میں حملہ اور ھوتے ہیں مگر ناکامی انکامقدر ھے
2 علمائے سؤ ہیں جو ایوب خان کے دور میں کرایے پہ حاصل کیئے گیئے تھے ایوب کی دربار سے انہیں باقاعدہ وظیفہ دیاجاتا تھا پھر انہیں سید مودودی پہ چھوڑ دیاجاتا تھا وہ منبر ومحراب پہ جلسوں جلوسوں میں سید کانام لیکر شدید الزام لگاتے تھےیہ وہ طبقہ ھے جس نے سید مودودی کو پڑھا ھی نہیں ھے سید صاحب نے اپنی زندگی میں انہیں کوئی جواب نہیں یہ خود اپنی موت آپ مرگئے
3 اہل علم طبقہ ھے جس نے آپ سے علمی اختلاف کیا ھے آپ نے متعدد مقامات پہ اپنی رائے سے رجوع کیا ھے ڈاکٹر حمیداللہ خان فرانس والے مولانا محمد چراغ گوجرانوالے مولانا امین احسن اصلاحی مولانا گوہر رحمان فاضل دیوبند اور دیگر علمی شخصیات سے انکی دلیل سے متاثر ھوئے اپنے موقف سے رجوع بھی کیا جن علمائے کرام نے آپ پہ خلافت وملوکیت کی وجہ سے تنقید کی اور کہا کہ آپ نے اس کتاب میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضہ اللہ عنہ پہ تنقید کی ھے یہ آپکا مقام نہیں ھے کہ آپ اصحاب رسول پہ تنقید کریں۔ اسی کتاب میں علمائے حق کے اعتراض پہ اس بات کا جواب بھی لکھ دیا جو تتمہ کے طور پہ موجود ھے اصحاب رسول کی عظمت فضیلت پہ شاندار تحریر لکھی حضرت عثمان غنی اور حضرت معاویہ کی اسلام کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا مزید اس کی وضاحت کی کہ خلافت راشدہ کا نظام کیوں ختم ھوا ملوکیت کیوں قائم ھوئی اسلام کے سیاسی معاشی معاشرتی عدالتی نظام جو انسانیت کی فطرت کے قریب تر ھے اس کا دفاع کیا مغرب کو سمجھایا کہ اسلام کا نظام عدل اور نظام سیاست بہترین نظام ھے اس میں افراد کی کمزوری کو نہ دیکھا جائے اسلام کے نظام میں کوئی ابہام نہیں
سید ابوالاعلی مودودی انسان تھے معصوم عن الخطا نہیں تھے ان سے فہم کی غلطی ھوسکتی ھے مگر انہوں نے اسلام کی جو خدمت کی ھے گزشتہ صدی میں انکے برابر کا کوئی سکالرز نظر نہیں آتا اللہ پاک انکی مغفرت فرمائے اور جنت کا مکین بنائے حضور نبی کریم کی محفل نصیب فرمائے
تحریر حافظ محمد حسین
تونسہ شریف
